Tuesday 3 May 2022

ہم لوگ جو روتے ہوئے دیہات سے نکلے

 ہم لوگ جو روتے ہوئے دیہات سے نکلے

صد شکر کیا لعنتِ طبقات سے نکلے 

تاریخ بتاتی ہے کہ زندان میں پہنچے   

سب شاہ ہمارے جو محلات سے نکلے 

پھر ان کے لیے کٹنے لگے گردن و بازو 

الفاظ جو کچھ گونگے اشارات حرکات سے نکلے

آدھے سے زیادہ تو حکایات سے نکلے 

یہ میرے عقیدے جو کرامات سے نکلے 

نبیوں کے گھرانے میں رہا علم کا ورثہ

درویش مگر کوئے خرابات سے نکلے 

ہر شہر سے نکلیں گے فلاطون و ارسطو 

یہ قوم اگر کوچۂ جذبات سے نکلے 

اونچائی پہ آتے ہی گرجنے لگے عرفی 

وہ ابر جو دھرتی کے بخارات سے نکلے


عرفان عرفی

No comments:

Post a Comment