Sunday, 1 May 2022

صحرا ہے نہ بازار ہے دیوار کے اس پار

 صحرا ہے نہ بازار ہے دیوار کے اُس پار

دیوار ہی دیوار ہے، دیوار کے اس پار

بیٹھا ہے کوئی گھات لگائے ہوئے مجھ پر

خاموشی لگاتار ہے دیوار کے اس پار

آتی ہیں کراہیں، کبھی آہیں، کبھی سسکی

شاید کوئی بیمار ہے دیوار کے اس پار

اب صرف نظر آتی ہیں مجھ کو میری آنکھیں

اب جھانکنا بے کار ہے، دیوار کے اس پار

کہتا ہے پرندے بڑے آزاد ہیں، لیکن

زنجیر کی جھنکار ہے دیوار کے اس پار

دل بجنے کی، پہلو کو بدلنے کی ہے آواز

کوئی تو آوازار ہے دیوار کے اس پار

تقسیم ہوا دل تو ادھر شہر خموشاں

اور شہر عزادار ہے دیوار کے اس پار

یا کھیل کوئی اور خطرناک ہے جاری

یا کوئی مِرا یار ہے دیوار کے اس پار

یہ خوف شکنجے کی طرح مجھ کو ہے لاحق

بستی کوئی خونخوار ہے دیوار کے اس پار

کوئی بھی نہیں ایسا جو مجرم نہیں میرا

ہر شخص گناہگار ہے دیوار کے اس پار

پہلے مجھے دیوار کے اس پار اتارا

اب میرا طلبگار ہے دیوار کے اس پار

میں تنہا نکل پڑنے کو اٹھ بیٹھا ہوں فرحت

لشکر کوئی تیار ہے دیوار کے اس پار


فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment