آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے
دل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے
ہر سُو دکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
ملتی نہیں ہے لذتِ دردِ جگر مجھے
بھولی ہوئی نہ ہو نگہِ فتنہ گر مجھے
ڈالا ہے بے خودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے
کرنا ہے آج حضرت ناصح سے سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے
مستانہ کر رہا ہوں رہِ عاشقی کو طے
لے جائے جذبِ شوق مِرا اب جدھر مجھے
ڈرتا ہوں جلوۂ رخِ جاناں کو دیکھ کر
اپنا بنا نہ لے کہیں میری نظر مجھے
یکساں ہے حسن و عشق کی سر مستیوں کا رنگ
ان کی خبر انہیں ہے نہ میری خبر مجھے
مرنا ہے ان کے پاؤں پہ رکھ کر سرِ نیاز
کرنا ہے آج قصۂ غم مختصر مجھے
سینے سے دل عزیز ہے دل سے ہو تم عزیز
سب سے مگر عزیز ہے تیری نظر مجھے
میں دور ہوں تو روئے سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتے نظر مجھے
کیا جانئے قفس میں رہے کیا معاملہ
اب تک تو ہیں عزیز مِرے بال و پر مجھے
جگر مراد آبادی
No comments:
Post a Comment