Tuesday, 3 May 2022

آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے

 آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے

اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے

دل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغ جگر مجھے

یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے

ہر سُو دکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے

کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے

ملتی نہیں ہے لذتِ دردِ جگر مجھے

بھولی ہوئی نہ ہو نگہِ فتنہ گر مجھے

ڈالا ہے بے خودی نے عجب راہ پر مجھے

آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے

کرنا ہے آج حضرت ناصح سے سامنا

مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے

مستانہ کر رہا ہوں رہِ عاشقی کو طے

لے جائے جذبِ شوق مِرا اب جدھر مجھے

ڈرتا ہوں جلوۂ رخِ جاناں کو دیکھ کر

اپنا بنا نہ لے کہیں میری نظر مجھے

یکساں ہے حسن و عشق کی سر مستیوں کا رنگ

ان کی خبر انہیں ہے نہ میری خبر مجھے

مرنا ہے ان کے پاؤں پہ رکھ کر سرِ نیاز

کرنا ہے آج قصۂ غم مختصر مجھے

سینے سے دل عزیز ہے دل سے ہو تم عزیز

سب سے مگر عزیز ہے تیری نظر مجھے

میں دور ہوں تو روئے سخن مجھ سے کس لیے

تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتے نظر مجھے

کیا جانئے قفس میں رہے کیا معاملہ

اب تک تو ہیں عزیز مِرے بال و پر مجھے


جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment