حیرتِ عشق سے نکلوں تو کدھر جاؤں میں
ایک صورت نظر آتی ہے جدھر جاؤں میں
یہ بھی ممکن ہے کہ ہر سانس سزا ہو جائے
ہو بھی سکتا ہے جدائی میں سنور جاؤں میں
یوں مسلسل مجھے تکنے کی نہ عادت ڈالو
یہ نہ ہو آنکھ جو جھپکو تو بکھر جاؤں میں
کیا تِرے دل پہ قیامت بھی بھلا ٹوٹے گی
گر تجھے دیکھ کے چپ چاپ گزر جاؤں میں
دیکھ، انجام تو دینے ہیں امورِ دنیا
جی تو کرتا ہے تِرے پاس ٹھہر جاؤں میں
تھام رکھا ہے جو تُو نے تو سلامت ہے بدن
تُو اگر ہاتھ چُھڑا لے تو بکھر جاؤں میں
جس قدر بگڑا ہوا ہوں میں یہی سوچتا ہوں
کب تِرے ہاتھ لگوں اور سُدھر جاؤں میں
کون ہے، بول مِرا، میری اداسی ! تجھ بن
تُو بھی گر پاس نہ آئے تو کدھر جاؤں میں
یہ مِری عمر فقط چاہ میں تیری گزرے
مر نہ جاؤں جو تِرے دل سے اتر جاؤں میں
زین شکیل
No comments:
Post a Comment