Tuesday, 3 May 2022

ٹھہرو بارش رک جائے تو

 جھوٹ


ٹھہرو بارش رک جائے تو

میں ہی تم کو چھوڑ آؤں گا

تب تک کوئی شعر سنا دو

یا پھر تار ہنسی کا چھیڑو

دیکھو مجھ کو جانے دو

جنگل سارا بھیگ گیا ہے

اور بادل بھی غصے میں ہے

پاگل ہو تم، کیسی باتیں کرتی ہو

میرے ہوتے بادل برسے

یا پھر دھوپ اندھیرا چھائے

کون تمہیں کچھ کہہ سکتا ہے


صفیہ چوہدری

No comments:

Post a Comment