سنگ کو تکیہ بنا خواب کو چادر کر کے
جس جگہ تھکتا ہوں پڑ رہتا ہوں بستر کر کے
اب کسی آنکھ کا جادو نہیں چلتا مجھ پر
وہ نظر بھول گئی ہے مجھے پتھر کر کے
یار لوگوں نے بہت رنج دیے تھے مجھ کو
جا چکا ہے جو حساب اپنا برابر کر کے
اس کو بھی پڑ گیا اک اور ضروری کوئی کام
میں بھی گھر پر نہ رہا وقت مقرر کر کے
پوچھنا چاہتا ہوں اس نگہ و دل سے جمال
کس کو آباد کیا ہے مجھے بے گھر کر کے
جمال احسانی
No comments:
Post a Comment