آنکھ میں خواب زمانے سے الگ رکھا ہے
عکس کو آئینہ خانے سے الگ رکھا ہے
گھر میں گلدان سجائے ہیں تِری آمد پر
اور اک پھول بہانے سے الگ رکھا ہے
کچھ ہوا میں بھی چلانے کے لیے رکھا جائے
اس لیے تیر نشانے سے الگ رکھا ہے
اس کے ہونٹوں کو نہیں آنکھ کو دی ہے ترجیح
پیاس کو پیاس بجھانے سے الگ رکھا ہے
غیر ممکن ہے کسی اور کے ہاتھ آ جائے
وہ خزانہ جو خزانے سے الگ رکھا ہے
اک ہوا سی کہیں باندھی ہے چھپانے کے لیے
اِک تماشا سا لگانے سے الگ رکھا ہے
خواب ہی خواب میں تعمیر کیا ہے آزر
گھر کو بنیاد اٹھانے سے الگ رکھا ہے
دلاور علی آزر
No comments:
Post a Comment