ان کا ہٹتا رہا نقاب جناب
ہم بھی ہوتے رہے خراب جناب
آپ پتھر لیے ہیں ہاتھوں میں
ہم تو لے آئے ہیں گلاب جناب
آپ سے دوستی جو کر لی ہے
سب پکاریں ہیں اب جناب جناب
اپنے بچوں کے نام رکھوں گا
خواب، سیماب، آفتاب جناب
وہ پری وش اگر ہو بانہوں میں
کون کمبخت لے شراب جناب
بیٹھئے اس طرح نہ شرما کر
چھوڑئیے اس قدر حجاب جناب
ہم کو طوطے کی طرح ازبر ہے
عشق کا سارا ہی نصاب جناب
تم تو سارے ہی دسترس میں ہو
کون رکھے گا اب حساب جناب
اب حسینوں کے ہیں غلام اشرف
پہلے ہوتے تھے ہم نواب جناب
ہائے چڑھتی جوانیاں اشرف
مار ڈالے گا یہ شباب جناب
اشرف علی
No comments:
Post a Comment