بھلی نہیں ہے انا پروری کی خُو، رو بھی
نکال آنکھ کے رستے ہے دل میں جو جو بھی
تھا اس کا ساتھ تو کٹتا تھا ہر سفر، لیکن
سفر طویل ہے، اب ہمسفر نہیں وہ بھی
وہ چشمِ تر میں بصارت کا کام کرتا ہے
کروں بھی کیا جو اگر اس سے مسئلہ ہو بھی
سزائے شِرک کی تدبیر سوجھتی ہے اسے
معاشقے تھے بیک وقت جس کے دو دو بھی
یہ خستہ حال جو بیٹھا ہوا ہے چوکھٹ پر
کسی بلاوے پہ آیا ہے، اس کو دیکھو بھی
کمین گاہ میں دشمن کی فوج ہوتی تھی
اور اب کی بار تو دیکھا ہے دوستوں کو بھی
خیالِ یار میں جاگے تھے رات بھر مہدی
صدائے یار نے دھیمے سے کہہ دیا؛ سو بھی
شہزاد مہدی
No comments:
Post a Comment