کار زارِ زندگی میں ایسے لمحے آ گئے
عزمِ محکم رکھنے والے وقت سے گھبرا گئے
دوسروں کے واسطے جیتے رہے مرتے رہے
خوب سیرت لوگ تھے، رازِ محبت پا گئے
باغ پر بجلی گرے، یا نذرِ گلچیں ہو رہے
آہ اب سوچوں کے دھارے اس نہج پر آ گئے
اس جھلستی دھوپ نے آخر کہاں پہنچا دیا
چھاؤں کی خاطر پسِ دیوارِ زنداں آ گئے
وائے محرومی کہ بس ہم آسماں تکتے رہے
یوں تو بادل گھر کے آئے حسرتیں برسا گئے
دل کی شادابی کی خاطر دل کی تسکیں کے لئے
رضوی! مضطر کبھی مکہ کبھی متھرا گئے
حیات رضوی امروہوی
No comments:
Post a Comment