Tuesday 3 May 2022

آپ کے دل سے اتر جاتے کنارا کرتے

 آپ کے دل سے اُتر جاتے، کنارہ کرتے

آپ مبہم سا اگر ایک اشارہ کرتے

ہم نے دیکھی ہے جدائی میں وہ لذت کہ ہمیں

کرنا پڑتا تو یہی ہجر دوبارہ کرتے

کس اذیت میں ہمیں آپ نے چھوڑا تنہا

دوست ہوتے تو بھلا ایسے کنارہ کرتے

تشنگی لب پہ لیے ڈوبتے اس دریا میں

آپ ساحل پہ کھڑے ہوتے، نظارہ کرتے

ہم تو شامل ہی نہیں حرفِ دعا میں تیرے

کیوں تیرا ہاتھ بھی ہاتھوں میں گوارا کرتے

مسکراتی ہوئی آنکھوں کے مقابل بازی

جیت جاتے کبھی ہم اور کبھی ہارا کرتے

تُو نے سمجھا ہی نہیں شوق کا عالم ورنہ

ہم دل و جاں سے تیرا صدقہ اتارا کرتے

ہم تیرے ہاتھ پہ لکھ لیتے مقدر اپنا

ہم تیری آنکھ سے دنیا کو سنوارا کرتے

ہم کو ملتی تیری دہلیز کی سوغات اگر

خاک کو چومتے، ماتھے کا ستارہ کرتے


فوزیہ شیخ

No comments:

Post a Comment