Sunday 1 May 2022

رکھنا ہے تو پھولوں کو تو رکھ لے نگاہوں میں

 رکھنا ہے تو پھولوں کو تو رکھ لے نگاہوں میں

خوشبو تو مسافر ہے کھو جائے گی راہوں میں

کیوں میری محبت سے برہم ہو زمیں والو

اک اور گُنہ رکھ لو دنیا کے گناہوں میں

کیفیت مے دل کا درماں نہ ہوئی، لیکن

رنگیں تو رہی دنیا کچھ دیر نگاہوں میں

کانٹوں سے گزر جانا دشوار نہیں، لیکن

کانٹے ہی نہیں یارو کلیاں بھی ہیں راہوں میں

پردہ ہو تو پردہ ہو اس پردہ کو کیا کہیۓ

چھپتے ہیں نگاہوں سے رہتے ہیں نگاہوں میں

یارانِ رہِ غربت کیا ہو گئے کیا کہیۓ

کچھ سو گئے منزل پر کچھ کھو گئے راہوں میں

گزری ہوئی صدیوں کو آغاز سفر سمجھو

ماضی ابھی کمسن ہے فردا کی نگاہوں میں

رنگیں ہے شمیم اب تک پیراہن جاں اپنا

ہم رات گزار آئے کس خواب کی بانہوں میں


شمیم کرہانی

No comments:

Post a Comment