اب کہاں شہر میں وہ آئینہ تن تم جیسے
لے گئے باندھ کے سب رُوپ کا دھن تم جیسے
ہم نے کھینچے ہیں تو یہ ہم تھے، سو یہ غم کھینچے ہیں
کھنچ سکتے نہیں یہ رنج و محن تم جیسے
ہم بھی جی لیں گے کسی طور بہ ایں حال فراق
ہم نے بھی سیکھ لیے تم سے چلن تم جیسے
ہم میں قوت ہے بچھڑ جانے کی، ہم ہجر نصیب
ہار آئے ہیں کئی لعل و یمن تم جیسے
کبھی لگتا ہے تم سرو سمن جیسے ہو
کبھی لگتا ہے کہ ہیں سرو و سمن تم جیسے
ہم سا مداح بھی لاکھوں میں کوئی ہوتا ہے
شاذ ہوتے ہیں اگر زہرہ بدن تم جیسے
تب تلک سبز ہے یہ برگِ غزل جب تک ہیں
ہم سے آشفتہ بیاں، رشکِ چمن تم جیسے
کون لکھے تِرے مصرعے پہ غزل تجھ سی فراز
کوئی کس منہ سے کرے تم سے سُخن، تم جیسے
افتخار مغل
No comments:
Post a Comment