Sunday, 1 May 2022

تشنہ کامی کا یہ الزام اتارا جائے

 تشنہ کامی کا یہ الزام اتارا جائے

اک سمندر مِرے ہونٹوں سے گزارا جائے 

گفتگو کرنی ہے اک شخص کی سیرت سے مجھے

آسمانوں سے فرشتوں کو اتارا جائے

حضرتِ قیس مِرے حق میں گواہی دیں گے

اب سرِ دشت مِرا نام پکارا جائے

زندگی تُو تو گوارا ہے مگر اس کے بغیر

مسئلہ یہ ہے تجھے کیسے گزارا جائے

میں حسینی بھی ہوں تشنہ بھی ہوں سچا بھی ہوں

مجھ کو پانی سے بہت دور نہ مارا جائے 

اپنے گھونگھٹ میں ایک جھنگ لیے بیٹھی ہے

اس کی جانب بھی کوئی تخت ہزارا جائے

کب تلک اس پہ رہوں گا میں لٹکتا عرفان

مجھ کو احساس کی سولی سے اتارا جائے


عرفان صادق

No comments:

Post a Comment