Sunday, 1 May 2022

میں شجر ہوں شہر ملال کا مری ٹہنیوں کو نہال کر

 میں شجر ہوں شہرِ ملال کا مِری ٹہنیوں کو نہال کر

کبھی بھیج اپنی نوازشیں کسی جامِ ابر میں ڈھال کر

مجھے خار خار مسافتوں کی ستمگری نے تھکا دیا

مجھے منزلوں کا سراغ دے مِرے حوصلے کو بہال کر

میں چراغ خانہ درد ہوں تیری کائناتِ بسیط میں

مجھے بھیگی رات میں پھیلتی ہوئی چاندنی کی مثال کر

مِری عمر بھر کی سیاہیاں میرے لب پہ مہر لگا گئیں

مِری روح میں گھلی تشنگی مجھے کہہ رہی ہے سوال کر

گھنے جنگلوں کے حصار میں مِرا عشق بھی مِری عقل بھی

رہِ شہرِ امن دکھا مجھے کڑی گردشوں سے نکال کر

میرے بے جواز وجود پر تیری رحمتوں کا جواز ہیں

وہ ندامتیں جنہیں آنکھ میں کبھی رکھ لیا تھا سنبھال کر


فوزیہ تاج

No comments:

Post a Comment