مجھے جستجو تِرے عشق کی، تِری قربتوں کا سوال ہے
نہیں عشق سے ابھی آشنا، مِرے دوستوں کا خیال ہے
مِرا خامہ اس کا گواہ ہے، مِری شاعری بھی دلیل ہے
مِری سانس ہے جو رواں دواں، تِری چاہتوں کا کمال ہے
تُو نگاہ سے مِری دور ہے، دل و جاں سے پھر بھی قریب ہے
یہ فراق ہے نہ وصال ہے، تِری شفقتوں کا یہ حال ہے
تجھے زندگی میں ہے کیا ملا، یہی عشق تو نہیں زندگی
تو نہ ان کی بات کا خوف کر، تِرے دشمنوں کی یہ چال ہے
جو نہ مل سکا وہ تو کیا ہوا، کسی اور کا وہ نصیب تھا
نہیں ہار یہ تِرے عشق کی، تِری الفتوں کا زوال ہے
مِری منزلیں تو ہیں دور پر، مِری جستجو کو دوام ہے
مِری عاشقی ہے جدا نصر، کوئی مثل ہے نہ مثال ہے
ذیشان نصر
No comments:
Post a Comment