Sunday, 1 May 2022

اس نے بچپن کے سنائے ہیں فسانے کیا کیا

 اس نے بچپن کے سنائے ہیں فسانے کیا کیا

جاگ اٹھے ہیں میرے زخم پرانے کیا کیا

وصل میں ہجر جدائی میں ملن کے سائے

پیار کی راہ میں آتے ہیں زمانے کیا کیا

مئے کبھی پی ہے، کبھی اشک بہائے ہم نے

ہم نے تسکین کے ڈھونڈے ہیں بہانے کیا کیا

کبھی آنکھوں میں کبھی دل میں چھپا کر رکھا

آپ کے غم کو دئیے ہم نے ٹھکانے کیا کیا

رنگ پھولوں کو دئیے، روشنی دی تاروں کو

تیری آنکھوں نے لُٹائے خزانے کیا کیا

اک بُھولی سی صورت بچھڑ گئی تو جرار

مجھ کو کہتے رہے یہ لوگ نجانے کیا کیا 


آغا جرار

No comments:

Post a Comment