اس نے بچپن کے سنائے ہیں فسانے کیا کیا
جاگ اٹھے ہیں میرے زخم پرانے کیا کیا
وصل میں ہجر جدائی میں ملن کے سائے
پیار کی راہ میں آتے ہیں زمانے کیا کیا
مئے کبھی پی ہے، کبھی اشک بہائے ہم نے
ہم نے تسکین کے ڈھونڈے ہیں بہانے کیا کیا
کبھی آنکھوں میں کبھی دل میں چھپا کر رکھا
آپ کے غم کو دئیے ہم نے ٹھکانے کیا کیا
رنگ پھولوں کو دئیے، روشنی دی تاروں کو
تیری آنکھوں نے لُٹائے خزانے کیا کیا
اک بُھولی سی صورت بچھڑ گئی تو جرار
مجھ کو کہتے رہے یہ لوگ نجانے کیا کیا
آغا جرار
No comments:
Post a Comment