رسم ضبط نافذ ہے پھر خدا کی دھرتی میں
بھیڑیوں کی آمد ہے فاختہ کی بستی میں
آنکھ کے جھپکنے میں قافلے لٹیں گے پھر
راہبر کے حلیۓ میں راہزن ہے مستی میں
جبر کی ہوائیں ہیں دھونس کی خزاؤں میں
مال کی ہوس آخر کھینچ لے گی پستی میں
ڈوبنا مقدر تھا ڈوبنے پہ حیرت کیوں
سانپ کی جبلّت کے ڈھونگئے تھے کشتی میں
ذات کے بھکاری ہیں سامراج کے مہرے
جھوٹ ہے دکھاوا ہے شعبدہ ہے ہستی میں
سازشوں کے غازی پھر آ گئے ہیں مسند پر
بخت سے گِلہ کیسا نیتوں کی سستی میں
علی ساحر
No comments:
Post a Comment