Sunday 1 May 2022

کسی کے ہاتھ سے اک پھولدان ٹوٹا تھا

کسی کے ہاتھ سے اک پھولدان ٹُوٹا تھا

اور اس کے ساتھ دلِ بدگُمان ٹوٹا تھا

زمیں پھٹی نہ کہیں آسمان ٹوٹا تھا

بچھڑتے وقت فقط ایک مان ٹوٹا تھا

مآلِ کشمکشِ سنگ و آئینہ مت پوچھ

جو ٹوٹنا تھا وہی میری جان ٹوٹا تھا

چھپی ہوئی تھی ندامت ہوا کے لہجے میں

کہ اب کے پیڑ نہیں باغبان ٹوٹا تھا

اسی کی چیخ کو پھر سے الاپنا تھا مجھے

وہ ایک سُر جو کہیں درمیان ٹوٹا تھا

تِرے بیان میں کچھ تو کمی رہی ہو گی

تِرا طلسم سرِ داستان ٹوٹا تھا

ہوا کے ساتھ کچھ اپنے بھی کارفرما تھے

پھٹا نہیں تھا، مِرا بادبان ٹوٹا تھا


اسد رحمان

No comments:

Post a Comment