Saturday, 2 April 2022

خیال جان سے بڑھ کر سفر میں رہتا ہے

خیال جان سے بڑھ کر سفر میں رہتا ہے

وہ میری روح کے اندر سفر میں رہتا ہے

جو سارے دن کی تھکن اوڑھ کر میں سوتا ہوں

تو ساری رات مِرا گھر سفر میں رہتا ہے

جنم جنم سے مِری پیاس سر پٹکتی ہے

جنم جنم سے سمندر سفر میں رہتا ہے

مِرا یقین کرو اس کے پاؤں میں تِل ہے

اسی لیے وہ برابر سفر میں رہتا ہے

میں دل ہی دل میں جسے پُوجنے لگا ہوں بہت

وہ دیوتا نہیں، پتھر سفر میں رہتا ہے


انجم بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment