اداس اداس طبیعت جو تھی، بہلنے لگی
ابھی میں رو ہی رہا تھا کہ رُت بدلنے لگی
ذرا تھمے تھے کہ پھر ہو گئے رواں آنسو
جو رک گئی تھی وہ غم کی برات چلنے لگی
ٹھہر گئی ہے کہاں آ کے ڈھلتے ڈھلتے رات
بھلا ہو شہر کے لوگوں کی خوش لباسی کا
کہ بے کسی بھی مِرا "پیرہن" بدلنے لگی
ستم ظریفیٔ "فطرت" تو دیکھیۓ اظہر
شباب آیا غزل پر، تو "عمر" ڈھلنے لگی
اظہر عنایتی
No comments:
Post a Comment