Tuesday, 4 August 2020

اب ہم فقیر جی سے دل کو اٹھا کے بیٹھے

اب ہم فقیر جی سے دل کو اٹھا کے بیٹھے
اس خصم جاں کے در پر تکیہ بنا کے بیٹھے
مرتے ہوئے بھی ہم کو صورت نہ آ دکھائی
وقت اخیر اچھا منہ کو چھپا کے بیٹھے
عزلت نشیں ہوئے جب، دل داغ ہو گیا تب
یعنی کہ عاشقی میں ہم گھر جلا کے بیٹھے
جو کفر جانتے تھے عشقِ بتاں کو، وہ ہی
مسجد کے آگے آخر قشقہ لگا کے بیٹھے
شورِ متاعِ خوبی، اس شوخ کا بلا تھا
بازاری سب دکانیں اپنی بڑھا کے بیٹھے
کیا اپنی اور اس کی اب نقل کرئیے صحبت
مجلس سے اٹھ گیا وہ، ٹک ہم جو آ کے بیٹھے
ق
پھولوں کی سیج پر سے جو بے دماغ اٹھے
مسند پہ ناز کی جو تیوری چڑھا کے بیٹھے
کیا غم اسے زمیں پر بے برگ و ساز کوئی
خار و خسک ہی کیوں نہ برسوں بچھا کے بیٹھے
وادئ قیس سے پھر آئے نہ میر صاحب
مرشد کے ڈھیر پر وے شاید کہ جا کے بیٹھے

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment