اب ہم فقیر جی سے دل کو اٹھا کے بیٹھے
اس خصم جاں کے در پر تکیہ بنا کے بیٹھے
مرتے ہوئے بھی ہم کو صورت نہ آ دکھائی
وقت اخیر اچھا منہ کو چھپا کے بیٹھے
عزلت نشیں ہوئے جب، دل داغ ہو گیا تب
جو کفر جانتے تھے عشقِ بتاں کو، وہ ہی
مسجد کے آگے آخر قشقہ لگا کے بیٹھے
شورِ متاعِ خوبی، اس شوخ کا بلا تھا
بازاری سب دکانیں اپنی بڑھا کے بیٹھے
کیا اپنی اور اس کی اب نقل کرئیے صحبت
مجلس سے اٹھ گیا وہ، ٹک ہم جو آ کے بیٹھے
ق
پھولوں کی سیج پر سے جو بے دماغ اٹھے
مسند پہ ناز کی جو تیوری چڑھا کے بیٹھے
کیا غم اسے زمیں پر بے برگ و ساز کوئی
خار و خسک ہی کیوں نہ برسوں بچھا کے بیٹھے
وادئ قیس سے پھر آئے نہ میر صاحب
مرشد کے ڈھیر پر وے شاید کہ جا کے بیٹھے
میر تقی میر
No comments:
Post a Comment