یکم مئی
ہاتھ پاؤں بھی بتاتے ہیں کہ مزدور ہوں میں
اور ملبوس بھی کہتا ہے کہ مجبور ہوں میں
فخر کرتا ہوں کہ کھاتا ہوں فقط رزقِ حلال
اپنی اس صفتِ قلندر پہ تو مغرور ہوں میں
سال سارا مِرا کٹ جاتا ہے گمنامی میں
بس یکم مئی کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
بات کرتا نہیں میری کوئی ایوانوں میں
سب کے منشور میں یوں صاحبِ منشور ہوں میں
اپنے بچوں کو بچا سکتا نہیں فاقوں سے
ان کو تعلیم دلانے سے بھی معذور ہوں میں
پیٹ بھر دیتا ہے حاکم مِرا تقریروں سے
اُس کی اِس طفل تسلی پہ تو رنجُور ہوں میں
یومِ مزدور ہے، چُھٹی ہے، مِرا فاقہ ہے
پھر بھی یہ دن تو مناؤں گا کہ مزدور ہوں میں
مجھ کو پردیس لیے پھرتی ہے روزی واصف
اپنے بچوں سے بہت دور، بہت دور ہوں میں
جبار واصف
No comments:
Post a Comment