Friday, 3 September 2021

چھیڑئیے ساز جگر آج یہ دل شاد رہے

 چھیڑئیے سازِ جگر آج یہ دل شاد رہے

ڈوب جاؤں انہی لمحوں میں نہ کچھ یاد رہے

میری خوابیدہ نگاہوں سے نہ چھینو یہ ساماں

ذہن کچھ دیر کو تو خوشیوں سے آباد رہے

ہم کو چاہو تو ذرا ٹوٹ کر چاہو ایسے

آنکھ میں شکوے نہ لب پر کوئی فریاد رہے

ہلکی مدھم سی یہ شمع کی لو جلتی رہے

رات کی رانی کی خوشبو سے فضا آباد رہے

ریت پر بنتے نشاں قدموں کے جو مٹنے لگے

آنکھ سے خواب گئے لب پہ بھی فریاد رہے

گیت سارہ کے لبوں پر جو مچلتے تھے کبھی

نہ رہا عشق وہ اور گیت بھی بے داد رہے


سارہ جبیں

No comments:

Post a Comment