کون کہتا ہے محبت نہیں رہتی مجھ میں
بس وہ اظہار کی عادت نہیں رہتی مجھ میں
ایک روٹین سی ہو جاتی ہے کچھ عرصہ بعد
اور پھر خواہشِ خدمت نہیں رہتی مجھ میں
جی تو کرتا ہے شبِ ماہ میں گھوموں لیکن
شام کے بعد اجازت نہیں رہتی مجھ میں
گلے رہتے ہیں مگر ان کے قریبوں سے بہت
شیخ صاحب سے شکایت نہیں رہتی مجھ میں
مجھے احساسِ ندامت تو بہت رہتا ہے
سر جھکا دوں تو اذیت نہیں رہتی مجھ میں
دل میں آتے ہیں خیالات مرصع ہو کر
نظر ثانی کی ضرورت نہیں رہتی مجھ میں
خاور اعجاز
No comments:
Post a Comment