Tuesday 28 September 2021

کون کہتا ہے محبت نہیں رہتی مجھ میں

 کون کہتا ہے محبت نہیں رہتی مجھ میں

بس وہ اظہار کی عادت نہیں رہتی مجھ میں

ایک روٹین سی ہو جاتی ہے کچھ عرصہ بعد

اور پھر خواہشِ خدمت نہیں رہتی مجھ میں

جی تو کرتا ہے شبِ ماہ میں گھوموں لیکن

شام کے بعد اجازت نہیں رہتی مجھ میں

گلے رہتے ہیں مگر ان کے قریبوں سے بہت

شیخ صاحب سے شکایت نہیں رہتی مجھ میں

مجھے احساسِ ندامت تو بہت رہتا ہے

سر جھکا دوں تو اذیت نہیں رہتی مجھ میں

دل میں آتے ہیں خیالات مرصع ہو کر

نظر ثانی کی ضرورت نہیں رہتی مجھ میں


خاور اعجاز

No comments:

Post a Comment