Wednesday, 29 September 2021

نقش فریادی وائے ناداریاں ہائے مجبوریاں

 نقش فریادی


وائے ناداریاں ہائے مجبوریاں

رسم و آداب کے بس میں ہے زندگی

غیر کی ہو کے پردیس جاتی ہو تم

حسرت و یاس و حرماں میں ڈوبی ہوئی


جیسے شاداب سی جھیل میں اک کنول

چڑھتے سورج کی تیزی سے کملائے ہے

یا بہ عہد بہاراں کسی اک سبب

جیسے پھولوں سے رنگت اتر جائے ہے


ہر سہیلی تبسم بہ لب ہے مگر

تم ہی مغموم ہو تم ہی خاموش ہو

جیسے گلچیں کا سارے چمن زار میں

اک کلی پر ہی کچھ ظلم ہو دوش ہو


خامشی صد زبان و بیاں کی طرح

اپنی دنیا کے دکھ درد کہتی ہوئی

پھر بھی اپنوں سے بے گانگی سی لیے

وقت کی دھار پر ناؤ بہتی ہوئی


وہ اداسی کہ حوروں کو افسوس ہو

ہوں فرشتے بھی ایسی فضا میں خجل

اور کس کس کو اے دور الزام دوں

کچھ پسیجا تو ہو گا خدا کا بھی دل


دور آفریدی

No comments:

Post a Comment