Thursday 30 September 2021

بسائی میں نے جو قلب حزیں میں

 بسائی میں نے جو قلبِ حزِیں میں

وہ دنیا کام آئی کارِ دِیں میں

وہی ہے اصل میں جانِ تمنا

جو حسرت ہے نگاہ واپسِیں میں

تِرے شوقِ سراپا کی کشش سے

سمٹ آیا ہوں میں اپنی جبیں میں

ہے پیچ و تاب میں ہر موجِ ساحل

وہ بے تابی ہے موجِ تہ نشیں میں

حقیقت ہے کہ ہو تم جانِ خوبی

کہ خوبی ہے وطن کی سرزمیں میں

محبت ہے کہ وہ عکسِ مسرت

اتر آیا مِرے قلبِ حزیں میں

جنوں کے راج میں انصاف ہو گا

نہ ہو گا فرق جیب و آستیں میں

بہت کچھ پاؤ گے دنیا میں پیارے

محبت پاؤ گے لیکن ہمِیں میں

بخاری کی تڑپ حافظ کی مستی

تمہارے نغمۂ وجد آفریں میں


زیڈ اے بخاری 

ذوالفقار علی بخاری

No comments:

Post a Comment