فضا میں ایک رہ بُھولا ہوا سیّار کر دیتی
اگر فطرت مجھے تیرے لیے دُشوار کر دیتی
یہ خوں آلود صدیوں کے سفر خاشاک ہو جاتے
تمہاری بے رُخی اے کاش حس بیدار کر دیتی
بچھڑنا تجھ سے نا ممکن تھا اک پل کے لیے ورنہ
یہ اک موہوم سی دُوری تجھے ہموار کر دیتی
تکلف کیوں کیا؟ میری عقیدت آزما لیتا
تِری چاہت مِرے جیون کو طوق و دار کر دیتی
تجھے راس آ گئیں تیری مال اندیشاں ورنہ
میری گُستاخ دُھن تجھ کو سرِ بازار کر دیتی
مراتب اختر
No comments:
Post a Comment