رات کا پھیلنا مختصر ہو گیا
میں تِرے عشق میں بے ہنر ہو گیا
زندگی کٹ گئی دھوپ میں دوستا
میں سرِ دشت ٹھہرا شجر ہو گیا
دل میں نفرت کا جنگل ہرا ہو گیا
لفظ چاہت سے میں بے خبر ہو گیا
ان کی آنکھوں کے روشن دِیے بجھ ہوئے
سوز و سازِ غزل بے اثر ہو گیا
جو کسی اور کا دست و بازو رہا
بے بسی میں مِرا ہمسفر ہو گیا
فیصل امام رضوی
No comments:
Post a Comment