سوچ بنتی ہوئی کاغذ پہ خیالی آنکھیں
اس کے کمرے سے چرا لیں وہ نرالی آنکھیں
گرتی اٹھتی ہوئیں پلکوں سے توقف کرتیں
کیا کہوں کتنی مدلل ہیں مثالی آنکھیں
یاد کرنا ہو سبق جیسے ضروری کوئی
میں نے چہرے پہ یونہی اس کے گڑا لی آنکھیں
ہم سے دیکھی نہ گئی ان کی جو بے باک نظر
اوٹ میں ہاتھ کے پھر ہم نے چھپا لی آنکھیں
روز چھپ چھپ کےانہیں دیکھتی رہتی ہوں میں
روز کاغذ پہ بناتی ہوں خیالی آنکھیں
میری باتوں پہ یونہی روٹھ کے کہنا اس کا
رونا روتی ہیں مگرمچھ کا غزالی آنکھیں
ورنہ وہ کھینچ کے لے جاتیں تہِ چشم انہیں
کھینچ کر ہم نے ان آنکھوں سے نکالی آنکھیں
چائے خانے کی کسی میز پہ اک میں اک تو
شام، خاموشی، جھجھک، چائے، متالی، آنکھیں
حیاء غزل
No comments:
Post a Comment