Tuesday, 28 September 2021

سوچ بنتی ہوئی کاغذ پہ خیالی آنکھیں

 سوچ بنتی ہوئی کاغذ پہ خیالی آنکھیں

اس کے کمرے سے چرا لیں وہ نرالی آنکھیں

گرتی اٹھتی ہوئیں پلکوں سے توقف کرتیں

کیا کہوں کتنی مدلل ہیں مثالی آنکھیں

یاد کرنا ہو سبق جیسے ضروری کوئی

میں نے چہرے پہ یونہی اس کے گڑا لی آنکھیں

ہم سے دیکھی نہ گئی ان کی جو بے باک نظر

اوٹ میں ہاتھ کے پھر ہم نے چھپا لی آنکھیں

روز چھپ چھپ کےانہیں دیکھتی رہتی ہوں میں

روز کاغذ پہ بناتی ہوں خیالی آنکھیں

میری باتوں پہ یونہی روٹھ کے کہنا اس کا

رونا روتی ہیں مگرمچھ کا غزالی آنکھیں

ورنہ وہ کھینچ کے لے جاتیں تہِ چشم انہیں

کھینچ کر ہم نے ان آنکھوں سے نکالی آنکھیں

چائے خانے کی کسی میز پہ اک میں اک تو

شام، خاموشی، جھجھک، چائے، متالی، آنکھیں


حیاء غزل

No comments:

Post a Comment