شکوے زباں پہ آ سکیں اس کا سوال ہی نہ ہو
ان سے جفا کا ذکر کیا جن کو خیال ہی نہ ہو
دل ہی تو ہے زباں نہیں شکوہ نہیں کریں گے ہم
لیکن یہ شرط کس لیے جی کو ملال ہی نہ ہو
مژگاں پہ واں نگاہِ لطف ہونٹوں پہ یاں حدیثِ شوق
اپنے حدود سے بڑھیں اس کی مجال ہی نہ ہو
شوق کو انتظارِ لطف، لطف کو انتظارِ شوق
بات بنے بھی کیا جہاں پُرسشِ حال ہی نہ ہو
ٹھیس غرور کو لگی قہر بنی نگاہِ لطف
قہر بھی ضد سے تو اماں جس کو زوال ہی نہ ہو
لطف نہ تھا جسے نصیب قہر کی تاب لائے کیوں
عشق کی خود فریبیاں جیسے خیال ہی نہ ہو
حامد نو اسیر سے چرخِ کہن نے کیا کہا
ہے وہ حیات رائیگاں جو پائمال ہی نہ ہو
سید حامد
No comments:
Post a Comment