آج پھر میں نے تجھے یاد کیا
آج میں نے تجھے رو رو کے بہت یاد کیا
برف کے پھر بڑے طوفاں اٹھے
پھر بھی آنسو نہ جمے چہرے پر
شدتِ جذبۂ احساسِ محبت تھی کہ سب
تیز چلتی ہوئی ان ٹھنڈی ہواؤں کو ہوئی مایوسی
میں نے سوچا تھا فقط تیرے بدن کی حدت
آج بھی ساتھ ہے میرے مجھے محفوظ کیۓ
ساتھ میں سرد ہواؤں کی کوئی سرگوشی
بارہا درد بھرے تیرے یہ سندیس دئیے جاتی تھی
آنکھ پھر سے مِری اشکوں سے بھرے جاتی تھی
بھری آنکھوں میں تجھے ڈوبتے دیکھا میں نے
ڈوبنے والے ابھرتے نہیں، سوچا میں نے
کوٹ پھینکا کہیں، دستانے کہیں جا پھینکے
اپنی ہر ممکنہ خوش فہمی کو برباد کیا
آج میں نے تجھے رو رو کے بہت یاد کیا
سلمان صدیق
No comments:
Post a Comment