کس سے کریں گے عرضِ تمنّا کہیں جسے
مِلتا نہیں ہے کوئی بھی اپنا کہیں جسے
گِرتی ہُوئی حیات کی دِیوار تھامیے
لازم ہے دردِ دل کا سہارا کہیں جسے
میخانۂ حیات میں بہتی ہے جُوئے خُون
ساقی! تِرا تغافل بے جا کہیں جسے
خُونِ جگر سے بزمِ تمنّا ہے لالہ رنگ
محرومیاں ہیں اور دلِ شیدا کہیں جسے
آباد ان کے جذبِ محبت کے دم سے ہے
عقل و دل و خیال کی دُنیا کہیں جسے
دُنیا کے حادثات سے آساں گُزر گئے
کتنا حسِیں ہے وعدۂ فردا کہیں جسے
اللہ، کیا ہیں سوزِ تمنّا کی عنایات
مر مر کے ان کی راہ میں جینا کہیں جسے
جب ناگہاں ملے تو کِیا وعدۂ وصال
یہ اِلتفات ہے کہ بہانہ کہیں جسے
سلطان الحق شہیدی
No comments:
Post a Comment