غزل لکھی ہے غزالوں کا دُکھ نہیں سمجھا
کسی نے ماہ جمالوں کا دکھ نہیں سمجھا
لیا ہے لُطف محبت کی داستانوں سے
زمانہ ہیر مثالوں کا دکھ نہیں سمجھا
سبھی ہوئے ہیں نرالی اداؤں پر قربان
مگر کسی نے نرالوں کا دکھ نہیں سمجھا
اُمیدِ صُبحِ منور کشید کی ہے، مگر
گُزرتی شب کے اُجالوں کا دکھ نہیں سمجھا
جو لکھ رہا ہے فراق اور ہجر کے قصے
وہ ہجر پالنے والوں کا دکھ نہیں سمجھا
افتخار حیدر
No comments:
Post a Comment