محرومی کے دکھ اور تنہائی کے رنج اٹھائے
لیکن ہم کو آج بھی جھوٹا پیار نہ کرنا آئے
سیلِ غم! دنیا نے دل سے کیا کیا نقش مٹائے
ہجر کی راتوں میں اب تیری شکل بھی یاد نہ آئے
تنہائی کا سناٹا، اور آتی جاتی راتیں
تیری یاد نہ اور کوئی غم پھر بھی نیند نہ آئے
تیرے معصومانہ پیار کی دولت پا کر ہم نے
اکثر ناز کیا ہے لیکن کبھی کبھی پچھتائے
پیاسی کلیاں پانی کے قطرے قطرے کو ترسیں
اور کرم کا بادل دریاؤں پہ برستا جائے
عظیم مرتضیٰ
No comments:
Post a Comment