آئینہ عکس ہوا کا نہیں دیتا کوئی
لمس احساس کو چہرہ نہیں دیتا کوئی
ماں چلی جائے تو لُٹ جاتی ہے دُنیا ساری
باپ مر جائے تو سایا نہیں دیتا کوئی
چلنے والوں کو تو دیوار بھی در ہوتی ہے
رُکنے والوں کو تو رستا نہیں دیتا کوئی
لوگ دروازے پہ دستک تو بہت دیتے ہیں
دل کسی اور کو رخنہ نہیں دیتا کوئی
ملکیت اپنی جگہ غیر کا قبضہ ہو اگر
پھل تو پھل پیڑ کا پتا نہیں دیتا کوئی
وقت دریا ہے جو بہتا ہی چلا جاتا ہے
ہاتھ آ جائے تو لمحہ نہیں دیتا کوئی
تُو نے اظہار نہیں پیار کیا ہے سید
ایسے گاہک کو تو سودا نہیں دیتا کوئی
سید عدید
No comments:
Post a Comment