تھوڑا سا حوصلہ تو مِرے ڈر میں ڈال دے
یعنی مِرے عدو کو بھی ششدر میں ڈال دے
تصویر تو ہے خوب، مگر ایک کام کر
یہ تشنگی اٹھا کے سمندر میں ڈال دے
امبر سے تارے ٹوٹ کے پلکوں سے آ لگے
اب تو سرشت موم کی پتھر میں ڈال دے
اک بار زندگی میں کہیں خود سے مل سکوں
ایسی کوئی لکیر مقدر میں ڈال دے
یہ تلخیاں سمیٹ، کہیں اس سے پیشتر
دیوار کوئی لا کے تِرے گھر میں ڈال دے
اختر تِری دوکان میں کچھ بھی نہیں رہا
کوئی نیا خیال ہی شاپر میں ڈال دے
اختر دولتالوی
No comments:
Post a Comment