بُھولی بِسری خواہشوں کا بوجھ آنکھوں پر نہ رکھ
خوبصورت آئینوں میں غم کا پس منظر نہ رکھ
دیکھ بڑھ کر شوخیاں موجوں کی اور قسمت کا کھیل
کشتیاں دریا کے سنجیدہ کناروں پر نہ رکھ
یا تو اُڑ جا ساتھ لے کر قید کی مجبوریاں
ورنہ اپنی جرأتوں کا نام بال و پر نہ رکھ
ہم تو سر رکھتے ہیں سجدوں کے لیے مجبور ہیں
تُو اگر سجدوں کا قاتل ہے تو سنگ در نہ رکھ
دینے والے سر دیا ہے تو کوئی سودا ابھی دے
ورنہ ان کاندھوں پہ یہ بے کار بارِ سر نہ رکھ
بے وفائی کی علامت بن چکے اصنام سب
دل کے بتخانے میں رونق اب کوئی پتھر نہ رکھ
رونق رضا
No comments:
Post a Comment