بازار
اس قدر شوخ نگاہوں سے نہ دیکھو مجھ کو
غیرت حسن پہ الزام نہ آ جائے کہیں
تم نے خود بھی نہیں سمجھا ہے ابھی تک جس کو
لب پہ وہ خواہشِ بے نام نہ آ جائے کہیں
یہ جو معصوم تمنا ہے تمہارے دل میں
کتنی سنگین خطا ہے یہ تمہیں کیا معلوم
اور دنیا میں محبت کے خطا کاروں پر
کس قدر ظلم ہوا ہے یہ تمہیں کیا معلوم
اپنی بوسیدہ روایات کے ویرانوں میں
تشنہ روحوں کو بھٹکتے نہیں دیکھا تم نے
اپنی تہذیب کے تاریک ستم خانوں میں
آرزوؤں کو سسکتے نہیں دیکھا تم نے
کتنی لاشیں ہیں پس مدفن ناموس یہاں
اپنے اجداد کی تاریخ اٹھا کر دیکھو
زینت خانہ جو بے روح سی تصویریں ہیں
چیخ اٹھیں گی ذرا ہاتھ لگا کر دیکھو
اپنی دنیا تو تجارت کی وہ منڈی ہے جہاں
جسم کی بات ہی کیا روح بھی بک جاتی ہے
دام لگ جائیں تو کیا عشوہ و انداز و ادا
پیار سی شے سر بازار چلی آتی ہے
تم کو بھی ایک نہ اک دن یوں ہی بکنا ہو گا
اپنے ناموس کی دیرینہ روایت کے لیے
کوئی تاجر تمہیں بازار سے لے جائے گا
اپنی بانہوں میں گھڑی بھر کی حرارت کے لیے
لوٹ جاؤ کہ یہاں پیار کا حاصل کیا ہے
نالۂ شب کے سوا آہِ سحر دم کے سوا
اور کیا دے گا زمانہ تمہیں انعامِ وفا
آتشِ غم کے سوا دیدۂ پُر نم کے سوا
شاہد اختر
No comments:
Post a Comment