Thursday 30 September 2021

صبا و گل کو مہ‌ و نجم کو دوانہ کیا

صبا و گل کو مہ‌ و نجم کو دِوانہ کیا 

مِری سرشت نے ہر رنگ کو نشانہ کیا 

وہی بہار، جسے تم بہار کہتے ہو 

سلوک ہم سے بہت اس نے باغیانہ کیا 

جہاں بھی تیز ہواؤں نے ساتھ چھوڑ دیا 

غبارِ راہ نے اپنا وہیں ٹھکانہ کیا

ہم آخر اس کے خد و خال دیکھتے کیسے

ہمیشہ اس نے قریب آنے سے بہانہ کیا 

سخنوری کی اجازت تو دل نے دے دی تھی 

مگر زبان نے اظہارِ مدعا نہ کیا 

سحر کی آنکھ سے آنسو ٹپک نہ جائیں نعیم

یہ سوچ کر نہ بیاں رات کا فسانہ کیا 


نعیم اختر

No comments:

Post a Comment