Monday, 27 September 2021

بغل یاران میں خنجر بھی تو ہو سکتا ہے

 بغلِ یاران میں خنجر بھی تو ہو سکتا ہے

یار امید سے بڑھ کر بھی تو ہو سکتا ہے

ہجر کا زخم دیا تُو نے جو میرے دل کو

زخم ایسا تِرے دل پر بھی تو ہو سکتا ہے

یہ ضروری تو نہیں آنکھ سے دریا نکلے

دل میں اک غم کا سمندر بھی تو ہو سکتا ہے

رِند مسجد میں اگر جائے تو حیرت کیسی

شیخ کے ہاتھ میں ساغر بھی تو ہو سکتا ہے

آج تنہا میں اگر ہوں تو کوئی بات نہیں

ساتھ میرے کبھی لشکر بھی تو ہو سکتا ہے

دل کو جو بھائے ضروری تو نہیں حاصل ہو

وہ کسی اور کا دلبر بھی تو ہو سکتا ہے

عشق میں وصل مقدر نہیں ہوتا، لیکن

کوئی قسمت کا سکندر بھی تو ہو سکتا ہے

تجھ کو سمجھا گلِ بے خار تو یہ نہ سوچا

کوئی کانٹا تیرے اندر بھی تو ہو سکتا ہے

اس کٹھن رستے پہ کب تک چلیں تنہا تنہا

یہ سفر زیست کا مل کر بھی تو ہو سکتا ہے

یہ بھی ممکن ہے مجھے عشق ضمانت دے دے

دردِ دل ہے کبھی بہتر بھی تو ہو سکتا ہے

مل کے بچھڑا ہے وہ باسط تو قیامت کیسی

پھر وہی میرا مقدر بھی تو ہو سکتا ہے


باسط علی حیدری

No comments:

Post a Comment