سرابِ دل سے مسلسل فریب کھا رہا ہوں
میں ایک عمر سے اپنے خلاف جا رہا ہوں
یقین و شک کی عجب کیفیت سے ہوں دو چار
بچھا رہا ہوں مصلیٰ کبھی اٹھا رہا ہوں
مِرا غرور ہے یہ خاک زادگی میری
میں پھر فرشتو تمہیں بات یہ بتا رہا ہوں
طلسم لفظ و معانی کے پھیر میں پھنس کر
بہ شکل نظم و غزل خون دل بہا رہا ہوں
خیام اشک میں جھلسی پڑی ہے کوئی مشک
میں اپنی پیاس کا قصہ اسے سنا رہا ہوں
بھلا کے سارے تقاضے ردیف موت کے میں
فقط حیات کا ہر قافیہ نبھا رہا ہوں
ندیم سرسوی
No comments:
Post a Comment