Tuesday, 28 September 2021

کوئی بندہ کوئی خدا نہ رہے

کوئی بندہ کوئی خدا نہ رہے

دل میں کوئی تِرے سوا نہ رہے

بے خیالی کی شام ڈھل جائے

وہ اگر آنکھ میں رکا نہ رہے

ہم پرندے کہاں بسیں جا کے

گر قفس کا بھی آسرا نہ رہے

یعنی مجھ کو خبر نہیں میری

ایسا تجھ کو مغالطہ نہ رہے

اے سمندر! اُچھال یوں مجھ کو

میرا خُشکی سے رابطہ نہ رہے


عرفان محبوب

No comments:

Post a Comment