کوئی بندہ کوئی خدا نہ رہے
دل میں کوئی تِرے سوا نہ رہے
بے خیالی کی شام ڈھل جائے
وہ اگر آنکھ میں رکا نہ رہے
ہم پرندے کہاں بسیں جا کے
گر قفس کا بھی آسرا نہ رہے
یعنی مجھ کو خبر نہیں میری
ایسا تجھ کو مغالطہ نہ رہے
اے سمندر! اُچھال یوں مجھ کو
میرا خُشکی سے رابطہ نہ رہے
عرفان محبوب
No comments:
Post a Comment