مجھ کو آواز دے
ان اندھیروں اجالوں کی پر ہول راہوں سے ہوتے ہوئے
کوئی آسیب خوابوں کو کھا جاتا ہے رات سوتے ہوئے
اے مِری زندگی تیرے ہوتے ہوئے
دیکھ میں تیرگی کے گھنے جنگلوں میں
جدائی کی زہریلی جھاڑی پہ اگتے ہوئے
آتشیں گل نگل کر جیئے جانے کی یہ سزا کاٹتی ہوں
کسی اور چہرے میں تیرے خد و خال پانا بہت ہی کٹھن ہے
یہ کیسا ملن ہے جو اپنے لیے عین آزار ہے
میں اندھیروں کے پروردہ
بے رحم و بے مہر سے قہقہے سن رہی ہوں
لبوں پر یہی ایک تکرار ہے
اے مِری روشنی مجھ کو آواز دے
اے مِری زندگی مجھ کو آواز دے
اے محبت کی راہوں میں بچھڑے ہوئے اجنبی
اے مِرے اجنبی
مجھ کو آواز دے
بشریٰ شاہ
بشریٰ شہزادی
No comments:
Post a Comment