زندگی! آج سے تیرا ہوں تمنائی میں
ساتھ تیرا نہیں چھوڑوں گا سمجھ آئی میں
تجھ کو معلوم نہیں گھر میں لگے پیڑ کا دُکھ
خاک سمجھا ہے تُو صدیوں کی شناسائی میں
درد بھی میر کے اشعار سے کر لیں گے جدا
آپ مشہور تو ہو جائیں مسیحائی میں
مر گیا ہے کوئی عاشق بھی اسی بستی میں
گونجتی چیخ بھی آئی کسی شہنائی میں
اب تو ہر وقت تِرے ساتھ ہی رہنا ہے مجھے
بن گیا ہوں یہ سمجھ لیں تِری پرچھائی میں
کون سمجھے گا مِرے درد بھرے لہجے کو
کون اُترے گا مِری بات کی گہرائی میں
یہ محبت تو مِری جان کی دُشمن ہے شفیق
یہ اتارے گی کسی روز مجھے کھائی میں
شفیق عطاری
No comments:
Post a Comment