کیسے رکھتا میں واسطہ مرشد
پل میں ٹوٹا تھا رابطہ مرشد
جس کے دل تک میری رسائی تھی
اب وہ رکھتا ہے فاصلہ مرشد
آپ ہیں میر کی غزل اور میں
درجہ آخر کا قافیہ مرشد
جن پہ ہم اعتبار کرتے تھے
اب بنے ہیں وہ ناصحا مرشد
رات، دن دل دعا یہ کرتا ہے
کاش ہوجائے حادثہ مرشد
خیر سے ان کی یاد بھی آخر
ڈھونڈ لیتی ہے فائدہ مرشد
اس جہاں میں ہو یہ نہیں ممکن
آپ سا کوئی دوسرا مرشد
اب جو احمد مَرا تو اس کے لیے
کون پڑھتا ہے فاتحہ مرشد
احمد سمیع
No comments:
Post a Comment