Tuesday, 28 September 2021

کیسے رکھتا میں واسطہ مرشد

 کیسے رکھتا میں واسطہ مرشد

پل میں ٹوٹا تھا رابطہ مرشد

جس کے دل تک میری رسائی تھی

اب وہ رکھتا ہے فاصلہ مرشد

آپ ہیں میر کی غزل اور میں

درجہ آخر کا قافیہ مرشد

جن پہ ہم اعتبار کرتے تھے

اب بنے ہیں وہ ناصحا مرشد

رات، دن دل دعا یہ کرتا ہے

کاش ہوجائے حادثہ مرشد

خیر سے ان کی یاد بھی آخر

ڈھونڈ لیتی ہے فائدہ مرشد

اس جہاں میں ہو یہ نہیں ممکن

آپ سا کوئی دوسرا مرشد

اب جو احمد مَرا تو اس کے لیے

کون پڑھتا ہے فاتحہ مرشد


احمد سمیع

No comments:

Post a Comment