دل تجھے بھول گیا ہو کہیں سچ تو ہے نا
یہ محبت بھی ریا ہو کہیں سچ تو ہے نا
اک قیامت ہے تِرا مجھ سے خفا ہو جانا
اور پھر روزِ جزا ہو کہیں سچ تو ہے نا
اب تِرے بعد تو موسم میں تغیّر بھی نہیں
کتنی بے رنگ ہوا ہو کہیں سچ تو ہے نا
ایک امید تِرے لوٹ کے آ جانے کی
بُجھتی آنکھوں میں دِیا ہو کہیں سچ تو ہے نا
دور تک صبح کے آثار نظر آتے نہیں
چاند بھی ڈُوب گیا ہو کہیں سچ تو ہے نا
ظلم کی حد ہے کہ ہر حد سے ورا ہوتی ہے
اس پہ تو دیکھ رہا ہو کہیں سچ تو ہے نا
تیرا دعویٰ ہے کہ شہ رگ سے بھی نزدیک ہے تُو
پھر بھی تُو مجھ سے جُدا ہو کہیں سچ تو ہے نا
کون اس روگ سے پھر جان چُھڑائے گا عدید
درد جب دل کی غذا ہو کہیں سچ تو ہے نا
سید عدید
No comments:
Post a Comment