مستقل محوِ غمِ عہدِ گزشتہ ہونا
ایسے ہونے سے تو بہتر ہے نہ دل کا ہونا
میں ہوں انساں مجھے انسان ہی رہنے دیجے
مت سکھائیں مجھے ہر گام فرشتہ ہونا
دیکھنی پڑتی ہیں ہر موڑ پہ اُدھڑی لاشیں
کتنا دُشوار ہے اس شہر میں بِینا ہونا
اے مصور! ذرا تصویر میں منظر یہ اُتار
دو کناروں کو ہے دیکھا گیا یکجا ہونا
ہیں فراہم مجھے بے راہروی کے اسباب
زیب دے گا مجھے آوارۂ دنیا ہونا
بستیاں شہرِ خموشاں کی طرح ہیں آباد
زندہ لوگوں کو لُبھانے لگا مُردہ ہونا
اے پری زاد تِرے ہجر میں یہ ہم پہ کُھلا
موت سے زیادہ الم بخش ہے تنہا ہونا
خود ہی گِر جائے گی زِندانِ بدن کی دیوار
روحِ افسردہ کو بے چین بھلا کیا ہونا
کھا گیا رونقیں پیوند و مراسم کی ندیم
جنسِ اخلاص کا بازار میں سستا ہونا
ندیم سرسوی
No comments:
Post a Comment