سوچتا بولتا اک نیا آدمی
ہو گیا آخرش لاپتہ آدمی
چھوڑ جاتا ہے ایسا خلا آدمی
بھر ہی سکتا نہیں دوسرا آدمی
پا گیا تھا یقیناً تو سچائی کو
یہ تِرا جرم ہے گمشدہ آدمی
زندگی بھی یوں ہی ہاتھ آتی نہیں
اس کو بھی چاہیے سر پھرا آدمی
کفر تو فرض ہے ایسے ماحول میں
ہو جہاں آدمی کا خدا آدمی
اک تڑپ اک لگن اک جنوں چاہیے
وہ بھی کیا آدمی جو نرا آدمی
پتھروں سے لپٹتے ہوئے رو پڑا
آدمی کا ستایا ہوا آدمی
عہدِ نو میں یہی میری تعریف ہے
میں غریب آدمی، میں برا آدمی
مظہر سید
No comments:
Post a Comment