کوئی رستے کا پتھر بن گیا ہے
بچھڑنا ہی مقدر بن گیا ہے💢
جہاں بچھڑے تھے ہم اک بار مل کے
کسی کا اس جگہ گھر بن گیا ہے
اسے کرنا تھی بیٹی کی حفاظت
سپاہی سے وہ لشکر بن گیا ہے
مِرے دل نے بہت جھیلے ہیں صدمے
اب اس دیوار میں در بن گیا ہے
تِرا لہجہ ہے زہریلا کچھ اتنا
تِرا ہر لفظ نشتر بن گیا ہے
روانی آنسوؤں کی کہہ رہی ہے
جو دریا تھا سمندر بن گیا ہے
یہاں فٹ پاتھ پر گز بھر کا رقبہ
کسی مُفلس کا بستر بن گیا ہے
تِرے رُخسار پر جس وقت ڈھلکا
وہ اک آنسو بھی گوہر بن گیا ہے
نور امروہوی
No comments:
Post a Comment